Sunday, April 6, 2025

🌹 نماز ایسے پڑھو،جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے

 

صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي

نماز میں اٹھنے کا مسنون طریقہ ،

سنت طریقہ ہی کیوں؟

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

{وَأَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ} (البقرۃ 2 : 43)

’’نماز قائم کرو۔‘‘

یہ ایک اجمالی حکم ہے۔اس کی تفصیل کیا ہے؟ نماز کس طرح قائم ہو گی؟ اس اجمال کی تفصیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ گرامی میں موجود ہے :

’صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي‘ ۔

’’نماز ایسے پڑھو،جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

(صحیح البخاري : 88/1، ح : 631)

إِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ لَا یُعْبَدُ إِلَّا بِمَا شَرَعَہٗ عَلٰی أَلْسِنَۃِ رُسُلِہٖ، فَإِنَّ الْعِبَادَۃَ حَقُّہٗ عَلٰی عِبَادِہٖ، وَحَقُّہٗ الَّذِي أَحَقَّہٗ ہُوَ، وَرَضِيَ بِہٖ، وَشَرَعَہٗ ۔

’’اللہ تعالیٰ کی عبادت کا صرف وہی طریقہ ہے،جو اس نے اپنے رسولوں کی زبانی بیان کر دیا۔عبادت بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کا حق وہی ہو سکتا ہے،جو اس نے خود مقرر کیا ہو،اس پر وہ راضی بھی ہو اور اس کا طریقہ بھی اس نے خود بیان کیا ہو۔‘‘

(إعلام الموقّعین عن ربّ العالمین : 344/1)

معلوم ہوا کہ عبادت کی قبولیت تب ہو گی،جب اسے سنت طریقے سے سرانجام دیا جائے۔سنت کا علم صرف ــ’’صحیح‘‘حدیث کے ذریعے ہوتا ہے۔جہالت اور عناد کی بنا پر ’’صحیحــ‘‘ احادیث کو چھوڑ کر ’’ضعیف‘‘ روایات کے ذریعے عبادات کے طریقے مقرر کرنا جائز نہیں۔

چونکہ نماز بھی ایک عبادت،بلکہ ایسا ستون ہے،جس پراسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے،لہٰذا اس کی ادائیگی میں بھی سنت طریقے کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

جلسہ استراحت اور تشہد کے بعد کیسے اٹھیں؟

نماز کی پہلی اور تیسری رکعت میں دونوں سجدوں کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے اطمینان سے بیٹھنا جلسۂ استراحت کہلاتا ہے۔اس جلسہ کے بعد اور درمیانے تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنا ہوتا ہے۔

اس اٹھنے کا سنت طریقہ جاننا اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے۔ملاحظہ فرمائیں ؛

دلیل نمبر 1 : مشہور تابعی،امام،ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا بیان ہے :

عَنْ أَبِي قِلَابَۃَ، قَالَ : جَائَ نَا مَالِکُ بْنُ الْحُوَیْرِثِ، فَصَلّٰی بِنَا فِي مَسْجِدِنَا ہٰذَا، فَقَالَ : إِنِّي لَـأُصَلِّي بِکُمْ، وَمَا أُرِیدُ الصَّلاَۃَ، وَلٰکِنْ أُرِیدُ أَنْ أُرِیَکُمْ کَیْفَ رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّي، قَالَ أَیُّوبُ : فَقُلْتُ لِأَبِي قِلاَبَۃَ : وَکَیْفَ کَانَتْ صَلاَتُہٗ؟ قَالَ : مِثْلَ صَلاَۃِ شَیْخِنَا ہٰذَا ــــیَعْنِي عَمْرَو بْنَ سَلِمَۃَــــ قَالَ أَیُّوبُ : وَکَانَ ذٰلِکَ الشَّیْخُ یُتِمُّ التَّکْبِیرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ عَنِ السَّجْدَۃِ الثَّانِیَۃِ جَلَسَ وَاعْتَمَدَ عَلَی الْـأَرْضِ، ثُمَّ قَامَ ۔

’’ابو قلابہ(تابعی)نے بتایا :ہمارے پاس سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ تشریف لائے ،ہماری مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی اور فرمانے لگے : میں تمہارے سامنے نماز پڑھنے لگا ہوں،حالانکہ نماز پڑھنا میرا مقصد نہیں۔دراصل میں چاہتا ہوں کہ تمہیں یہ بتاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھا کرتے تھے۔میں نے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی نماز کیسی تھی؟انہوں نے بتایا:ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی طرح۔ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے، جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے، تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ٹِک جاتے، پھر کھڑے ہوتے۔‘‘

(صحیح البخاري : 824)

امام محمد بن ادریس،شافعی رحمہ اللہ (204-150ھ)فرماتے ہیں :

وَبِہٰذَا نَأْخُذُ، فَنَأْمُرُ مَنْ قَامَ مِنْ سُجُودٍ، أَوْ جُلُوسٍ فِي الصَّلَاۃِ أَنْ یَّعْتَمِدَ عَلَی الْـأَرْضِ بِیَدَیْہِ مَعًا، اتِّبَاعًا لِّلسُّنَّۃِ، فَإِنَّ ذٰلِکَ أَشْبَہُ لِلتَّوَاضُعِ، وَأَعْوَنُ لِلْمُصَلِّي عَلَی الصَّلَاۃِ، وَأَحْرٰی أَنْ لَّا یَنْقَلِبَ، وَلَا یَکَادُ یَنْقَلِبُ، وَأَيُّ قِیَامٍ قَامَہٗ سِوٰی ہٰذَا کَرِہْتُہٗ لَہٗ ۔

’’ہم اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں اور جو شخص نماز میں سجدے یا تشہد سے (اگلی رکعت کے لیے)اٹھے،اسے حکم دیتے ہیں کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے۔یہ عمل عاجزی کے قریب تَر ہے،نمازی کے لیے مفید بھی ہے اور گرنے سے بچنے کا ذریعہ بھی ہے۔اس کے علاوہ اٹھنے کی کوئی بھی صورت میرے نزدیک مکروہ ہے۔‘‘

(کتاب الأمّ : 101/1)

اس حدیث پر سید الفقہائ،امیر المومنین فی الحدیث، امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ (256-194ھ)نے یہ باب قائم فرمایا ہے :

بَابٌ ؛ کَیْفَ یَعْتَمِدُ عَلَی الْـأَرْضِ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّکْعَۃِ ۔

’’اس بات کا بیان کہ نمازی (پہلی اور تیسری)رکعت سے اٹھتے ہوئے زمین کا سہارا کیسے لے گا۔‘‘

شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ (852-773ھ)امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وَالْغَرَضُ مِنْہُ ہُنَا ذِکْرُ الِاعْتِمَادِ عَلَی الْـأَرْضِ عِنْدَ الْقِیَامِ مِنَ السُّجُودِ أَوِ الْجُلُوسِ ۔

’’امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ سجدے اور تشہد سے اٹھتے ہوئے ہاتھوں کو زمین پر ٹیکناچاہیے۔‘‘

(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 303/2)

دلیل نمبر 2 : ازرق بن قیس تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ یَنْہَضُ فِي الصَّلَاۃِ، وَیَعْتَمِدُ عَلٰی یَدَیْہِ ۔

’’میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو نماز میں اٹھتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے ہوئے دیکھا۔‘‘

(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 394/1، وسندہٗ صحیحٌ)

دلیل نمبر 3 : خالد بن مہران حذا بیان کرتے ہیں :

رَأَیْتُ أَبَا قِلَابَۃَ وَالْحَسَنَ یَعْتَمِدَانِ عَلٰی أَیْدِیَہُمَا فِي الصَّلَاۃِ ۔

’’میں نے ابو قلابہ اور حسن بصری کو دیکھا کہ وہ نماز میں (اگلی رکعت کے لیے اٹھتے وقت)اپنے دونوں ہاتھوں کا سہارا لیتے تھے۔‘‘

(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 395/1، وسندہٗ صحیحٌ إن صحّ سماع عبادۃ بن العوّام من خالد)

گھٹنوں کے بل اٹھنے کا طریقہ !

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں دو سجدوں اور تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے گھٹنوں کے بل اٹھنا چاہیے۔آئیے اختصار کے ساتھ ان کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں؛

روایت نمبر 1 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :

نَہٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّعْتَمِدَ الرَّجُلُ عَلٰی یَدَیْہِ إِذَا نَہَضَ فِي الصَّلَاۃِ ۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں اٹھتے وقت اپنے ہاتھوں کا سہارا لے۔‘‘

(مسند الإمام أحمد : 147/2، سنن أبي داوٗد : 992)

تبصرہ :

یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ’’شاذ‘‘ہے۔امام عبدالرزاق رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں محمد بن عبد الملک غزال کو غلطی لگی ہے۔اس نے کئی ثقہ و اوثق راویوں کی مخالفت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔

اسی لیے حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’ضعیف‘‘اور ’’شاذ‘‘قرار دیا ہے۔

امام بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ)اس کے بارے میں فرماتے ہیں :

وَہٰذَا خَطَأٌ لِّمُخَالَفَتِہٖ سَائِرَ الرُّوَاۃِ، وَکَیْفَ یَکُونُ صَحِیحًا؟

’’یہ غلطی ہے، کیونکہ اس بیان میں محمد بن عبد الملک نے باقی تمام راویوں کی مخالفت کی ہے۔یہ صحیح کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘

(معرفۃ السنن والآثار : 43/3)

اس بات پر کئی قوی شواہد موجود ہیں کہ اس بیان میں محمد بن عبدالملک غزال کو وہم ہوا ہے،ملاحظہ فرمائیں ؛

1 امام عبد الرزاق رحمہ اللہ سے امام احمد بن حنبل،احمد بن محمد بن شبویہ، محمد بن رافع،محمد بن سہل عسکر،حسن بن مہدی اور احمد بن یوسف سلمی نے یہ روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے :

نَہَی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاۃِ أَنْ یَّعْتَمِدَ عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی ۔

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی نماز میں بیٹھے ہوئے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائے۔‘‘

2 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک حدیث یوں بیان کی ہے :

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی رَجُلًا، وَہُوَ جَالِسٌ، مُعْتَمِدًا عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی فِي الصَّلَاۃِ، وَقَالَ : ’إِنَّہَا صَلَاۃُ الْیَہُودِ‘ ۔

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں بائیں ہاتھ پر ٹیک لگاکر بیٹھنے سے منع کیا اور فرمایا:یہ تو یہود کی نماز ہے۔‘‘

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 272/1، السنن الکبرٰی للبیہقي : 136/2، وسندہٗ صحیحٌ)

امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’امام بخاری و مسلم۔کی شرط پر صحیح‘‘قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

3 نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

رَاٰی عَبْدُ اللّٰہِ رَجُلًا یُّصَلِّي، سَاقِطًا عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، مُتَّکِئًا عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی، فَقَالَ : لَا تُصَلِّ ہٰکَذَا، إِنَّمَا یَجْلِسُ ہٰکَذَا الَّذِینَ یُعَذَّبُونَ ۔

’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز میں اپنے گھٹنوں کے بل گرا ہوا تھا اور اس نے اپنے بائیں ہاتھ پر ٹیک لگائی ہوئی تھی۔انہوں نے اسے فرمایا : ایسے نماز نہ پڑھو۔اس طرح تو وہ لوگ بیٹھتے ہیں،جن کو سزا دی جا رہی ہو۔‘‘

(السنن الکبرٰی للبیہقي : 136/2، وسندہٗ حسنٌ)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ان بیانات سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محمد بن عبد الملک نے مذکورہ روایت بیان کرتے ہوئے غلطی کی ہے،لہٰذا ثقہ و اوثق راویوں کی بیان کردہ صحیح حدیث ہی قابل عمل ہے،نہ کہ ایک راوی کا وہم۔

روایت نمبر 2 : سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ، وَإِذَا نَہَضَ رَفَعَ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ ۔

’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ جب سجدہ کرتے،تو اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھتے اور جب اٹھتے، تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے تھے۔‘‘

(سنن أبي داوٗد : 828، سنن النسائي : 1090، سنن الترمذي : 268، وصحّحہٗ، سنن ابن ماجہ : 883، وصحّحہ ابن خزیمۃ : 629، وابن حبّان : 1909)

تبصرہ :

اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس میں شریک بن عبد اللہ قاضی’’مدلس‘‘ راوی ہیں، انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت نہیں کی۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔(السنن الکبرٰی : 100/2)

روایت نمبر 3 : سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے :

وَإِذَا نَہَضَ؛ نَہَضَ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، وَاعْتَمَدَ عَلٰی فَخِذَیْہِ ۔

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اٹھتے، تو گھٹنوں کے بل اٹھتے اور اپنی رانوں کا سہارا لیتے تھے۔‘‘

(سنن أبي داوٗد : 736، 839)

تبصرہ :

اس روایت کی سند ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔اس کے راوی عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے سماع نہیں کیا۔

حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :

حَدِیثٌ ضَعِیفٌ، لِأَنَّ عَبْدَ الْجَبَّارِ بْنَ وَائِلٍ؛ اتَّفَقَ الْحُفَّاظُ عَلٰی أَنَّہٗ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ شَیئًا، وَلَمْ یُدْرِکْہُ ۔

’’یہ حدیث ضعیف ہے،کیونکہ محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد سے کوئی بھی حدیث نہیں سنی،نہ ہی اس کی اپنے والد سے (سن شعور میں)ملاقات ہے۔‘‘

(المجموع شرح المہذّب : 446/3)

اس کی ایک متابعت بھی موجود ہے۔(سنن أبي داوٗد : 839، مراسیل أبي داوٗد : 42)

لیکن یہ روایت بھی دو وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے :

1 کلیب بن شہاب تابعی ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ ’’مرسل‘‘ہے اور ’’مرسل‘‘ روایت ’’ضعیف‘‘ہی کی ایک قسم ہے۔

2 شقیق،ابو لیث راوی ’’مجہول‘‘ہے۔

اسے امام طحاوی حنفی(شرح معانی الآثار : 255/1)،حافظ ذہبی(میزان الاعتدال : 279/2)اور حافظ ابن حجر(تقریب التہذیب : 2819) رحمہم اللہ نے ’’مجہول‘‘قرار دیا ہے۔

لہٰذا اس متابعت کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

روایت نمبر 4 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :

إِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ فِي الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوبَۃِ؛ إِذَا نَہَضَ الرَّجُلُ فِي الرَّکْعَتَیْنَ الْـأُولَیَیْنِ، أَنْ لَّا یَعْتَمِدَ بِیَدَیْہِ عَلَی الْـأَرْضِ، إِلَّا أَنْ یَّکُونَ شَیْخًا کَبِیرًا لَّا یَسْتَطِیعُ ۔

’’یہ سنت طریقہ ہے کہ فرض نماز میں جب آدمی پہلی دو رکعتوں کے بعد اٹھے، تو زمین پر ہاتھ نہ ٹیکے۔سوائے اس صورت کے کہ وہ بوڑھا ہواور اس طرح اٹھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔‘‘

(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 394/1، 395)

تبصرہ :

اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کا راوی عبد الرحمن بن اسحاق کوفی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔

(تقریب التہذیب : 198، فتح الباري : 523/13)

حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)لکھتے ہیں :

وَہُوَ ضَعِیفٌ بِالِاتِّفَاقِ ۔

’’اس راوی کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے۔‘‘

(شرح صحیح مسلم : 173/1)

یہ ’’منکر الحدیث‘‘راوی ہے،لہٰذا یہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے۔

روایت نمبر 5 : ابراہیم بن یزید نخعی تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :

إِنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ ذٰلِکَ إِلَّا أَنْ یَّکُونَ شَیْخًا کَبِیرًا أَوْ مَرِیضًا ۔

’’وہ بوڑھے یا مریض کے علاوہ ہاتھوں کو زمین پر ٹیک کر اٹھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘

(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 395/1)

تبصرہ :

اس قول کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ ہشیم بن بشیر واسطی ’’مدلس‘‘ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ویسے بھی یہ قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح و صریح فرمانِ گرامی اور صحابی ٔ رسول ،سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قیمتی عمل کے خلاف ہے،لہٰذا ناقابل التفات ہے ۔

الحاصل :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جلسہ استراحت یا تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کا سہارا لے کر اٹھتے تھے۔صحابی ٔ رسول سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں یہی طریقہ اختیار کرتے تھے۔ پھر سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بھی اسے نبوی طریقہ قرار دیا ہے۔تابعین کرام نے ان سے یہ سنت سیکھ کر آگے منتقل کی۔سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوقلابہ رحمہ اللہ بھی اسی سنت کے قائل و فاعل تھے۔ائمہ حدیث نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے یہی سمجھا،سمجھایا ہے اور اسی کو اختیار کیا ہے۔

❤️ اشراق، ضحی، چاشت، اوابین یہ چاروں ایک ہی نفلی نماز کے مختلف نام

اشراق، ضحی، چاشت، اوابین یہ چاروں ایک ہی نفلی نماز کے مختلف نام ہیں جو سورج نکلنے کے بعد سے لیکر زوال سے پہلے تک پڑھی جاتی ہیں


اشراق كى نماز سورج نکلنے کے بعد اول وقت ميں ادا كرنے کو کہتے ہیں ، اس كا نام اشراق اس ليے ركھا گيا ہے كہ يہ سورج نكلنے کے ساتھ ہی ادا کی جاتی ہے،

ضحی ،چاشت اور اوابین یعنی جب سورج اچھی طرح روشن اور گرم ہو جاتا ہے،جب اس وقت نفلی نماز پڑھیں تو یہ نماز چاشت/ضحی/اوابین کہلائے گی


🌹فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

بہت زیادہ نیک آدمی ہی نماز اشراق کی حفاظت کر سکتا ہے اور یہی نماز اوابین ہے،

(ابن خزیمہ،حدیث نمبر-1224)

یعنی اشراق کی نماز ہی اوابین ہے،


❤️ اشراق، ضحی، چاشت، اوابین یہ چاروں ایک ہی نفلی نماز کے مختلف نام 

عَنْ أَيُّوبَ عَنْ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَأَى قَوْمًا يُصَلُّونَ مِنْ الضُّحَى فَقَالَ أَمَا لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ الصَّلَاةَ فِي غَيْرِ هَذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ

(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ | بَابٌ : صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ،حدیث نمبر-748)

ترجمہ: ایوب نے قاسم شیبانی سے روایت کی کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ لوگوں کو چاشت کے وقت نماز پڑھتے دیکھاتو کہا:ہاں یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نماز اس وقت کی بجائے ایک اور وقت میں پڑھنا افضل ہے۔بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”اوابین(اطاعت گزار،توبہ کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والےلوگوں) کی نماز اس وقت ہوتی ہے جب(گرمی سے) اونٹ کے دودھ چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔

مسلم شریف میں اس حدیث پہ صلاۃ الاوابین کا باب ہے،


جبکہ صحیح ابن خزیمہ میں صلاۃ الضحی کا باب ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ چاشت اور اوابین دونوں ایک ہی نماز ہیں جیساکہ اسی حدیث میں مذکور ہے کہ لوگ چاشت کی نماز ادا کررہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اوابین کی نماز یعنی چاشت کی نماز فلاں وقت میں ہے ۔

اوابین کی نماز کا وقت طلوع آفتاب کے چند منٹ بعد سے شروع ہوتا ہے اور ظہر کی نماز سے کچھ دیر پہلے تک رہتا ہے اور گرمی تک مؤخر کرنا افضل ہے جیساکہ اوپر والی حدیث میں مذکور ہے ۔


❤️ ترمض کا معنی ہے سورج کی گرمی لگنا اور الفصال کا معنی اونٹ کا بچہ یعنی اوابین کا افضل وقت وہ ہے جب گرمی کی شدت سے اونٹ کا بچہ اپنے پاؤں اٹھائے اور رکھے،

(مجموع فتاوى ابن باز_ 11 / 395)


❤️ علماء كرام نے اس اوابین كا اندازہ دن كا چوتھائى حصہ لگايا ہے، يعنى ظہر اور طلوع شمس كے مابين نصف وقت.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 36 )

اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 27 / 224 )


❤️ شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اول وقت (جب سورج زیادہ گرم نا ہو) ميں (ضحی)چاشت كى نماز ادا كرنا اشراق كى نماز كہلاتا ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 401 )


*چاشت كى نماز كا وقت سورج كےطلوع اور اس كے بلند ہونے سے ليكر ظہر كى نماز سے قبل تک رہتا ہے*


❤️ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اس كا اندازہ لگايا ہے كہ:

تقريبا سورج طلوع ہونے كے پندرہ منٹ بعد سے ليكر نماز ظہر سے تقريبا دس منٹ قبل تک اشراق کی نماز کا وقت ہوتا ہے.

( ديكھيں: الشرح الممتع/ 4 ج/ ص122)


اوابین کے بارے ایک شبہ کا ازالہ


کچھ احباب کو غلط فہمی ہو گئی ہے کہ اوابین کی نماز مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے،جن احادیث کو دلیل بنایا جاتا ہے وہ سب سخت ضعیف ہین، ان میں سے ایک روایت ہم یہاں ذکر کرتے ہیں*


❤️ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کی، تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہو گا“۔

*امام ترمذی کہتے ہیں:*

۱- عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس نے مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھیں اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا“،

۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف «زيد بن حباب عن عمر بن أبي خثعم» کی سند سے جانتے ہیں،

۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم منکرالحدیث ہیں۔ اور انہوں نے انہیں سخت ضعیف کہا ہے

(سنن ترمذی،حدیث نمبر-435/ضعیف)

اس روایت کی سند میں عمر بن عبداللہ بن ابی خثعم نہایت ضعیف راوی ہے جیسا کہ اوپر امام ترمذی نے خود وضاحت فرما دی تھی، لہذا یہ حدیث قابل عمل نہیں،


یہ حدیث سخت ضعیف ہے ،

علامہ ابن القیم نے تو موضوع کہا ہے اور شیخ البانی نے متعدد جگہوں پر ضعیف جدا (سخت ضعیف) کہا ہے ۔

حوالہ کے لئے دیکھیں :

(المنار المنیف : 40،

ضعيف الترغيب:331،

السلسلة الضعيفة:469،

ضعيف الجامع:5661،

ضعيف ابن ماجه:220،

ضعيف ابن ماجه:256


*پہلی بات تو جتنی روایات مغرب کے بعد نماز پڑھنے کی ہیں ان میں اوابین کا ذکر ہی نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ تمام روایات ناقابل اعتماد اور ضعیف ہیں*


❤️ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مغرب وعشاء کے درمیان متعین رکعات کے ساتھ جو بھی احادیث آئی ہیں کوئی بھی صحیح نہیں ہے ، ایک دوسرے سے ضعف میں شدید ہیں،

(الضعیفہ:1/481)


__________&&&__________


*نماز اشراق کی رکعات*


*نماز اشراق کی رکعات کے بارے میں سنت سے دو،چار آٹھ رکعات تک کا ذکر ملتا ہے،اور زیادہ کی کوئی حد نہیں*


❤️ جیسے ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( تمام اعضاء پر صدقہ لازم ہے]جس سے اشراق کی دو رکعات کفایت کر جائیں گی)

(صحیح مسلم، حدیث نمبر-720)


❤️ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے میرے حبیب نے تین چیزوں کی تاکیدی نصیحت کی: ہر ماہ تین روزے رکھوں، اشراق کی دو رکعات ادا کروں، اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں)

(صحیح بخاری (1981)

(صحیح مسلم: (721)


*تاہم زیادہ سے زیادہ اشراق کی نماز کیلئے رکعات کی کوئی نص موجود نہیں ہے، صرف اتنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشراق کی نماز چار رکعات ادا کیں، اور بسا اوقات آپ چار سے بھی زیادہ ادا کر لیا کرتے تھے، جیسے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات ادا کی ہیں*


❤️ چنانچہ معاذہ رحمہا اللہ کہتی ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشراق کی کتنی رکعات ادا کیا کرتے تھے؟” تو انہوں نے کہا: “چار رکعات پڑھتے تھے، اور مرضی کے مطابق اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے”

(صحیح مسلم،حدیث نمبر_719)


❤️ ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور فاطمہ نے ان کیلئے پردے کا اہتمام کیا، غسل کے بعد آپ ایک کپڑے میں لپٹ گئے اور پھر اشراق کی آٹھ رکعات ادا کیں”

(صحیح مسلم،حدیث نمبر-336)


*نماز اشراق کیلئے کم از کم رکعات دو ہیں،اہل علم کا زیادہ سے زیادہ رکعات کے بارے میں اختلاف ہے،اور راجح یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نمازِ اشراق کی رکعات کیلئے کوئی حد بندی نہیں ہے، چنانچہ جتنی بھی رکعات دو ، دو کر کے ادا کریں جائز ہے*


❤️ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“اشراق کی نماز کم از کم دو رکعات ہیں، اور [زیادہ ]کیلئے کوئی حد نہیں ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو، چار اور فتح مکہ کے دن آٹھ رکعات پڑھنا بھی ثابت ہے، اس لیے اشراق کی رکعات کے بارے میں وسعت موجود ہے؛ لہذا اگر کئی شخص آٹھ ، دس، بارہ، یا اس سے کم و بیش بھی پڑھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (رات اور دن کی نماز دو، دو رکعات ہیں) لہذا سنت یہی ہے کہ انسان دو ، دو رکعات کر کے ادا کرے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے”

(مجموع فتاوى ابن باز ” (11/389)


❤️ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“صحیح بات یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نمازِ اشراق کی رکعات کیلئے کوئی حد بندی نہیں ہے؛ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشراق کی نماز کیلئے چار رکعات ادا کرتے ، اور جتنی اللہ تعالی توفیق دیتا ان رکعات میں اضافہ بھی کرتے” اس روایت کو مسلم نے نقل کیا ہے، اب اس روایت میں زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں کی گئی، چنانچہ اگر کوئی شخص مثال کے طور پر سورج کے ایک نیزے کے برابر بلند ہونے سے لیکر زوال سے کچھ پہلے تک مسلسل نوافل ہی ادا کرتے رہے تو یہ سب نماز اشراق ہی شمار ہوگی۔۔۔” انتہی

(“الشرح الممتع” (4/85)


____________&&________


*نمازِ اشراق کی فضیلت*


نماز اشراق کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد احادیث وارد ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:


❤️ 1- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر ایک کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ واجب ہے، چنانچہ “سبحان اللہ” کہنا صدقہ ہے، “الحمد للہ” کہنا صدقہ ہے، “لا الہ الا اللہ” کہنا صدقہ ہے، “اللہ اکبر” کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے، اور اس صدقے سے اشراق کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں)

(صحیح مسلم: حدیث نمبر-720)


❤️ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (وَيَجْزِي مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعهُمَا مِنْ الضُّحَى)[یعنی: اور اس صدقے سے اشراق کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں] میں ” وَيَجْزِي ” کو پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ [پہلی]”یا” پر پیش پڑھی جائے تو اسکا مطلب ہوگا: قائم مقام ہونا، [یعنی: یہ دو رکعتیں صدقے کے قائم مقام ہو جائیں گی] یا پھر اس پر زبر پڑھی چائے، تو اسکا مطلب ہوگا: کافی ہونا، [زبر پڑھنے کی صورت میں] اللہ تعالی کا فرمان: لَا تَجْزِي نَفْسٌ کوئی جان کافی نہ ہوگی[البقرة : 123] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (تمہارے بعد کسی کیلئے کافی نہ ہوگا) اسی معنی سے تعلق رکھتا ہے، یہاں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ چاشت کی نماز کی کتنی فضیلت ہے، اور اسکا کتنا بڑا مقام ہے، اسی طرح یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اشراق کی نماز دو رکعتیں بھی پڑھی جا سکتی ہیں” انتہی ماخوذ از امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب: “شرح مسلم ”


❤️ 2- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : “مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں انہیں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا: ہر ماہ تین دن کے روزے، اشراق کی نماز، اور وتر پڑھ کر سونا”

(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1178)


❤️ 3- ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : “مجھے میرے دوست صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں جب تک زندہ رہونگا ان پر عمل پیرا رہونگا: ہر ماہ میں تین روزے، نماز اشراق، اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں”

(صحیح مسلم: حدیث نمبر-722)


❤️ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابو درداء، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما کو وصیت نماز اشراق کی فضیلت، عظیم ثواب، اور تاکیدی عمل ہونے پر دلالت کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس عظیم ثواب کے حصول کیلئے انہوں نے اسے کبھی نہیں چھوڑا” انتہی

“المفهم لما أشكل من تلخيص مسلم”


❤️ 3- ابو درداء اور ابو ذر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں کہ: (ابن آدم! میرے لئے دن کے ابتدائی حصہ میں چار رکعات پڑھو، آخری حصہ میں میں تمہیں کافی ہو جاؤنگا)

(سنن ترمذی: حدیث نمبر-475)

اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔


❤️ مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“حدیث میں مذکور ” دن کے ابتدائی حصہ ” سے مراد ایک قول کے مطابق نماز اشراق ہے، اور ایک قول کے مطابق نماز ضحی ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ فجر کی سنتیں اور فرض مراد ہیں؛ کیونکہ شرعی طور پر دن کی ابتدا صبح سے ہی ہوتی ہے۔

مبارکپوری کہتے ہیں :میرے مطابق امام ترمذی اور ابو داود رحمہما اللہ نے ان چار رکعتوں سے مراد نماز اشراق ہی لی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو نماز اشراق کے باب میں ذکر کیا ہے۔

حدیث کے الفاظ: ” میں تمہیں کافی ہو جاؤنگا ” یعنی جو تمہاری ضروریات ہیں پوری کرونگا۔

اسی طرح : ” آخری حصہ میں ” یعنی دن کے آخری حصہ میں۔


❤️ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“اسکا مطلب یہ ہے کہ میں تمہاری ضروریات، اور حاجات کیلئے کافی ہو جاؤنگا، تمہاری چار رکعتوں سے فراغت کے بعد تمہیں پہنچنے والی ہر ناپسندیدہ چیز سے تمہارا دفاع کرونگا”


یعنی مطلب یہ ہے کہ میری عبادت کیلئے دن کے ابتدائی حصہ میں تم وقت نکالو، میں دن کے آخری لمحے میں تمہاری حاجت روائی کر کے ذہنی اطمینان دونگا”انتہی

(“تحفۃ الأحوذی” (2/478)


❤️ 4- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نمازِ اشراق کی صرف اوّاب[رجوع کرنے والا، توبہ کرنے والا] ہی پابندی کرتا ہے، اور یہی صلاۃ الاوّابین ہے)

( ابن خزیمہ، 1224) نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے

“صحيح الترغيب، والترهيب_ (1/164) میں ذکر کیا ہے،


❤️ 5- انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جس شخص نے فجر کی نماز با جماعت ادا کی، پھر سورج طلوع ہونے تک ذکر الہی میں مشغول رہا، پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں، تو یہ اس کیلئے مکمل ، مکمل، مکمل حج اور عمرے کے اجر کے برابر ہونگی)

(سنن ترمذی: (586) البانی رحمہ اللہ نے اسے “صحیح سنن ترمذی ” میں حسن کہا ہے ۔


❤️ مبارکپوری رحمہ اللہ “تحفة الأحوذی بشرح جامع الترمذی” (3/158) میں کہتے ہیں:”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ” پھر اس نے دو رکعتیں پڑھیں ” یعنی سورج طلوع ہونے کے بعد۔


❤️ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ : نیزے کے برابر سورج طلوع ہونے کے بعد جب مکروہ وقت ختم ہو گیا تو دو رکعت ادا کیں، اس نماز کو نماز اشراق کہا جاتا ہے، جو کہ نماز ضحی کی ابتدائی صورت ہے” انتہی


❤️ 6_رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلے، تو اس کا ثواب احرام باندھنے والے حاجی کے ثواب کی طرح ہے، اور جو چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اسی کی خاطر تکلیف (وضو وغیرہ کی مشقت) برداشت کرتا ہو تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کی طرح ہے،

(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-559)


*سبحان اللہ، الحمدللہ ،کتنی فضیلت والی نفلی نماز ہے یہ، جب کہ ہم لوگ اس قدر فضیلت والا اور مسنون عمل چھوڑ کر لوگوں کے بنائے من گھڑت وظیفوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں،اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اس نماز کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں،آمین یا رب العالمین*


*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*

💕 نماز چاشت اوابین ایک ہی نماز صحیح حدیث سے ثابت

 

عوام میں اوابین کی نماز کا بہت چرچا ہے مگر بیشتر اس کی اصل حقیقت سے ناواقف ہیں اور اکثر لوگ عموما یہ نماز مغرب کے بعد چھ رکعات ادا کرتے ہیں جبکہ اوابین کی نماز کا وقت یہ نہیں ہے ۔ عوام کی اسی غلطی پہ متنبہ کرنے کے لئے میں نے یہ مضمون لکھا ہے ۔ 

اوابین کے معنی
اواب مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی کثرت سے اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ، ذکر وتسبیح کرنے والا، گناہوں پر شرمندہ ہونے والا اور توبہ کرنے والا ہے ۔ اوابین اسی اواب کی جمع ہے۔ قرآن میں اواب اور اوابین دونوں استعمال ہوا ہے، اللہ کا فرمان ہے : 
هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ (ق:32) 
ترجمہ: یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لئے جو رجوع کرنے والا اور پابندی کرنے والا ہو ۔ 
اللہ کا فرمان ہے: رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ 
ۚ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا (الاسراء:25)
ترجمہ:جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے ۔ 
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے : وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا 
ۖ يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ ۖ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ (سبا:10)
ترجمہ: اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی ( یہی حکم ہے ) اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم کر دیا ۔ 

نماز اوابین اور چاشت کی نماز دونوں ایک ہیں: 
نماز اوابین اور چاشت کی نماز دونوں ایک ہی ہیں ، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس سے متعلق کئی احادیث اور ائمہ ومحدثین کے متعدد اقوال ہیں مگر ایک حدیث ہی اس کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور قول محمد ﷺ کے سامنے دنیا کے سارے اقوال اور لوگوں کی ساری باتیں مردود ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أوصاني خليلي بثلاثٍ لستُ بتاركهنَّ ، أن لا أنامَ إلا على وترٍ ، و أن لا أدَعَ ركعتي الضُّحى ، فإنها صلاةُ الأوّابينَ ، و صيامِ ثلاثةِ أيامٍ من كلِّ شهرٍ۔(صحيح الترغيب:664، صحيح ابن خزيمة:1223)
ترجمہ: مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں انہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ بغیر وتر پڑھے نہ سوؤں، چاشت کی دوگانہ نہ چھوڑوں کیونکہ یہی اوابین کی نماز ہے اور ہر ماہ تین روزے نہ ترک کروں۔ 
٭ اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح الترغیب اور صحیح ابن خزیمہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔ (حوالہ سابق) 
اس حدیث میں نبی ﷺ نے واضح طور پر بتلا دیا کہ صلاۃ الضحی(چاشت کی نماز) ہی صلاۃ الاوابین (اوابین کی نماز) ہے ۔ 
یہاں ایک اہم بات یاد رکھیں کہ فجر کے بعد سے ظہر کے پہلے تک تین نمازوں کا ذکر ہے ۔ ایک اشراق کی نماز، دوسری چاشت کی نماز اور تیسری اوابین کی نماز۔ ان تینوں نمازوں میں چاشت اور اوابین کی نماز دونوں ایک ہی ہیں اور اشراق کی نماز اول وقت پر ادا کرنا چاشت کی نماز ہے یعنی اشراق اور چاشت کی نماز بھی دونوں ایک ہی ہیں ۔ ہم نے اول وقت پر ادا کرلیا تو اشراق کہلایا اور ظہر کی نماز سے پہلے وسط یا آخر وقت میں ادا کئے تو چاشت کی نماز کہلائی ۔ گویا طلوع آفتاب کے چند منٹ بعد اشراق کا وقت ہے اور یہی وقت چاشت کا بھی ہے مگر اسے ظہر سے پہلے پہلے کسی بھی ادا کرسکتے ہیں ، ظہر سے پہلے وسط یا آخر وقت میں ادا کی گئی نماز کو چاشت کہیں گے پھر اشراق نہیں کہیں گے ۔ 

نمازاوابین کے فضائل : 
چونکہ چاشت کی نماز اور اوابین کی نماز دونوں ایک ہیں اس وجہ سے چاشت کی فضلیت سے متعلق جو بھی احادیث وارد ہیں وہ سبھی اوابین کی بھی فضیلت میں ہیں ۔ چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔ 
پہلی حدیث : عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَيُجْزِئُ مِنْ ذَلِكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُمَا مِنْ الضُّحَى(صحيح مسلم: 1701)
ترجمہ: حضرت ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:صبح کو تم میں سے ہر ایک شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے۔پس ہر ایک تسبیح (ایک دفعہ "سبحا ن الله" کہنا)صدقہ ہے۔ہر ایک تمحید ( الحمد لله کہنا)صدقہ ہے،ہر ایک تہلیل (لااله الا الله کہنا) صدقہ ہے ہرہر ایک تکبیر (الله اكبرکہنا) بھی صدقہ ہے۔(کسی کو) نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور (کسی کو ) برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔اور ان تمام امور کی جگہ دو رکعتیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھتا ہے کفایت کرتی ہیں۔

دوسری حدیث : عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَوْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنَّهُ قَالَ ابْنَ آدَمَ ارْكَعْ لِي مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ أَكْفِكَ آخِرَهُ(الترمذي: 486)
ترجمہ: بوالدرداء ؓ یا أبوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتاہے: اے ابن آدم ! تم دن کے شروع میں میری رضاکے لیے چار رکعتیں پڑھاکرو، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے ۔ ( صحيح الترمذي:475)

تیسری حدیث : عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ مُتَطَهِّرًا إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ، فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ، وَمَنْ خَرَجَ إِلَى تَسْبِيحِ الضُّحَى لَا يَنْصِبُهُ إِلَّا إِيَّاهُ، فَأَجْرُهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ، وَصَلَاةٌ عَلَى أَثَرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا، كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ (ابوداؤد:558)
ترجمہ: سیدنا ابوامامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو آدمی اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اجر و ثواب ایسے ہے جیسے کہ حاجی احرام باندھے ہوئے آئے اور جو شخص چاشت کی نماز کے لیے نکلے اور اس مشقت یا اٹھ کھڑے ہونے کی غرض صرف یہی نماز ہو تو ایسے آدمی کا ثواب عمرہ کرنے والے کی مانند ہے ۔ اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کہ ان دونوں کے درمیان کوئی لغو نہ ہو علیین میں اندراج کا باعث ہے ۔ 

چوتھی حدیث : انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :من صلى الغداة في جماعة، ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة تامة تامة تامة۔ (صحيح الترمذي: 586)
ترجمہ : جس نے جماعت سے فجرکی نمازپڑھی پھراللہ کے ذکرمیں مشغول رہایہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیاپھردورکعت نماز پڑھی ، تو اس کے لئےمکمل حج اور عمرے کے برابرثواب ہے ۔

نمازاوابین کا حکم: 
اس نماز کے حکم کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض نے اسے سببی نماز کہا کیونکہ اس قسم کے بھی دلائل وارد ہیں جیساکہ کسی نے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا: کیانبی اکرم ﷺ چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا:نہیں الا یہ کہ سفر سے واپس آئے ہوں۔( صحیح مسلم: 1691)
بعض نے سرے سے اس نماز کا انکار کیا بلکہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے بدعت کہہ دیا ہے ، یہ بات راوی کی عدم رویت پر محمول کی جائے جیساکہ حافظ ابن حجر نے کہا ہے ۔ بعض علماء نے کبھی کبھار پڑھنے کا جواز ذکر کیا ہے جبکہ شیخ ابن باز نے چاشت کی نماز کا حکم بیان کرتے ہوئے اسے سنت مؤکدہ کہا ہے اور بیشتر علماء اوابین کی نماز کو استحباب پر محمول کرتے ہیں ۔ میری نظر میں بھی استحباب کا حکم اولی واقوی ہے۔ اس سلسلے میں چند دلائل دیکھیں : 
(1) ایک دلیل اوپر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نبیﷺ کی تین ہمیشگی والی وصیتیں ہیں جن میں چاشت کی نماز بھی مذکور ہے۔ 
(2) نبی ﷺ کا فرمان ہے: لا يُحَافِظُ على صلاةِ الضُّحَى إلا أَوَّابٌ وهي صلاةُ الأَوَّابِينَ(صحيح الجامع:7628)
ترجمہ: نمازِ اشراق کی صرف اوّاب[رجوع کرنے والا، توبہ کرنے والا] ہی پابندی کرتا ہے، اور یہی صلاۃ الاوّابین ہے۔
یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ چاشت کی نماز اوابین کی نماز ہے وہیں اس میں چاشت واوابین کی نماز پر ہمیشگی کرنے کی بھی دلیل ہے ، اس لئے اس نماز کا انکار کرنا یا اسے بدعت کہنا صحیح نہیں ہے ، بڑے اجر وثواب کا عمل ہے اس پہ ہمیں مداومت برتنی چاہئے۔ 

نماز اوابین کی رکعات:
اوابین کی نماز کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات ہیں، نبی ﷺ سے دو رکعت ، چار رکعت اور فتح مکہ کے موقع پر ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں آٹھ رکعت پڑھنا ثابت ہے۔ان تمام احادیث کی روشنی میں مسلم شریف میں باب ہے(بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى، وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ، وَأَكْمَلَهَا ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْسَطُهَا أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتٍّ، وَالْحَثُّ عَلَى الْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا)یعنی باب ہے نماز چاشت کا استحباب ‘یہ کم از کم دو رکعتیں ‘مکمل آٹھ رکعتیں اور درمیانی صورت چار یا چھ رکعتیں ہیں‘نیز اس نماز کی پابندی کی تلقین کے بارے میں ۔
بارہ رکعات صلاۃ الضحی والی روایت ثابت نہیں ہے، الترغیب والترھیب(1/320) للمنذری میں ہے جو دو رکعت نماز چاشت ادا کرے اسے غافل میں نہیں لکھا جاتا ، اس میں آگے یہ ٹکڑا بھی ہے "مَن صلَّى ثِنْتَيْ عَشْرةَ رَكعةً بَنى اللهُ له بيتًا في الجنَّة" کہ جو بارہ رکعات (چاشت کی نماز) ادا کرے اللہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف الترغیب میں (405) میں درج کیا ہے ۔ اور اسی طرح ترمذی میں یہ روایت ہے :" مَن صلَّى الضُّحى ثنتي عشرةَ رَكعةً بنى اللَّهُ لَه قصرًا من ذَهبٍ في الجنَّةِ" یعنی جو چاشت کی بارہ رکعات ادا کرے گا اللہ اس کے لئے جنت میں سونے کا ایک محل تعمیر کرے گا ۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف الترمذی(473) میں درج کیا ہے ۔ 

نماز اوابین کا وقت : 
نماز اوابین کے وقت سے متعلق مسلم شریف میں ایک واضح حدیث ہے ۔ 
عَنْ أَيُّوبَ عَنْ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَأَى قَوْمًا يُصَلُّونَ مِنْ الضُّحَى فَقَالَ أَمَا لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ الصَّلَاةَ فِي غَيْرِ هَذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ(صحیح مسلم:1777)
ترجمہ: ایوب نے قاسم شیبانی سے روایت کی کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ لوگوں کو چاشت کے وقت نماز پڑھتے دیکھاتو کہا:ہاں یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نماز اس وقت کی بجائے ایک اور وقت میں پڑھنا افضل ہے۔بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"اوابین(اطاعت گزار،توبہ کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والےلوگوں) کی نماز اس وقت ہوتی ہے جب(گرمی سے) اونٹ کے دودھ چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔
مسلم شریف میں اس حدیث پہ صلاۃ الاوابین کا باب ہے جبکہ صحیح ابن خزیمہ میں صلاۃ الضحی کا باب ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ چاشت اور اوابین دونوں ایک ہی نماز ہیں جیساکہ اسی حدیث میں مذکور ہے کہ لوگ چاشت کی نماز ادا کررہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اوابین کی نماز یعنی چاشت کی نماز فلاں وقت میں ہے ۔ 
اوابین کی نماز کا وقت طلوع آفتاب کے چند منٹ بعد سے شروع ہوتا ہے اور ظہر کی نماز سے کچھ دیر پہلے تک رہتا ہے اور گرمی تک مؤخر کرنا افضل ہے جیساکہ اوپر والی حدیث میں مذکور ہے ۔ 
ترمض کا معنی ہے سورج کی گرمی لگنا اور الفصال کا معنی اونٹ کا بچہ یعنی اوابین کا افضل وقت وہ ہے جب گرمی کی شدت سے اونٹ کا بچہ اپنے پاؤں اٹھائے اور رکھے ۔ یہ دن کا چوتھائی حصہ یعنی طلوع شمس اور ظہر کے درمیان نصف وقت ہے۔

مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان نفل پڑھنا: 
مغرب کے بعد دو، چار، چھ ، آٹھ اور بیس رکعات نوافل پڑھنے کی متعدد روایات آئی ہیں ، ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ 
پہلی حدیث : من صلَّى ستَّ رَكَعاتٍ ، بعدَ المغرِبِ ، لم يتَكَلَّم بينَهُنَّ بسوءٍ ، عدَلَت لَه عبادةَ اثنتَي عَشرةَ سنةً۔ ( ترمذی: 435،ابن ماجہ:256)
ترجمہ:جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اوران کے درمیان کوئی بری بات نہ کی تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوگا۔
یہ حدیث سخت ضعیف ہے ، علامہ ابن القیم نے تو موضوع کہا ہے اور شیخ البانی نے متعدد جگہوں پر ضعیف جدا (سخت ضعیف) کہا ہے ۔ حوالہ کے لئے دیکھیں : (المنار المنیف : 40، ضعيف الترغيب:331، السلسلة الضعيفة:469، ضعيف الجامع:5661،ضعيف ابن ماجه:220، ضعيف ابن ماجه:256)

دوسری حدیث: مَن صلَّى ستَّ ركعاتٍ بعدَ المغربِ قبل أن يتكلَّمَ ,غُفرَ لهُ بها ذنوبُ خمسينَ سنةٍ۔ 
ترجمہ: جس نے مغرب کے بعد بغیر بات کئے چھ رکعتیں پڑھیں تو اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے بہت ہی ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:468)

تیسری حدیث:حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رأَيْتُ حبيبي رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم صلَّى بعدَ المغرِبِ ستَّ ركَعاتٍ وقال مَن صلَّى بعدَ المغرِبِ ستَّ ركَعاتٍ غُفِرَتْ له ذُنوبُه وإنْ كانت مِثْلَ زَبَدِ البحرِ(المعجم الأوسط:7/191, مجمع الزوائد:2/233)
ترجمہ: میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھیں تو اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
امام طبرانی نے اسے معجم اوسط میں ذکرکرنے کے بعد کہا کہ اس حدیث کو عمار سے بیان کرنے والا اکیلے صالح بن قطن ہے وہ بھی صرف اسی سند سے ۔ اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اسے ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس میں صالح بن قطن البخاری ہے جس کا ترجمہ مجھے نہیں مل سکا ۔ ابن الجوزی نے اس حدیث کو العلل المتناهية (1/453)میں شامل کرکے کہا کہ اس کی سند میں کئی مجہول راوی ہیں ۔ 

چوتھی حدیث : مَن صلَّى ، بينَ المغربِ والعِشاءِ ، عشرينَ رَكْعةً بنى اللَّهُ لَه بيتًا في الجنَّةِ(ابن ماجه: 1373)
ترجمہ: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان بیس رکعت نماز ادا کی اللہ اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ 
اس حدیث کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ (ضعيف ابن ماجه:255)

پانچویں حدیث : مَن صَلَّى بعدَ المغرِبَ قبلَ أنْ يَتَكَلَّمَ ركعتيْنِ - وفي روايةٍ : أربعَ رَكعاتٍ – ؛ رُفِعَتْ صلاتُه في عِلِّيِينَ.(مسند الفردوس، مصنف عبدالرزاق:4833، مصنف ابن أبي شيبة:5986)
ترجمہ: جس نے مغرب کی نماز کے بعد بغیر بات کئے دو رکعت ، اور ایک روایت میں ہے چار رکعت پڑھی تو اس کی نماز علیین میں اٹھائی جاتی ہے ۔ 
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (ضعيف الترغيب:335)

چھٹی حدیث : من صلى أربعَ ركعاتٍ بعد المغربِ كان كالمعقبِ غزوةً بعد غزوةٍ في سبيلِ اللهِ(شرح السنة للبغوی:3/474) 
ترجمہ: جس نے مغرب کے بعد چار رکعات ادا کی گویا وہ اللہ کی راہ میں پہ درپہ ایک عزوہ کے بعد دوسرا عزوہ کرنے والا ہے ۔ 
علامہ شوکانی نے کہا کہ اس کی سند میں موسی بن عبیدہ الزبدی بہت ہی ضعیف ہے ۔ (نیل الاوطار: 3/67)
ابن القیسرانی نے کہا کہ اس میں عبداللہ بن جعفر متروک الحدیث ہے ۔(تذکرۃ الحفاظ:335)
ابن حبان نے کہا کہ اس میں عبداللہ بن جعفر (علی بن مدینی کے والد) ہے جسے آثار کی روایت میں وہم ہوجاتا ہے اسے الٹ دیتا ہے ، اس میں خطا کرجاتا ہے ۔(المجروحین:1/509)

ساتویں حدیث : منْ ركع عشرِ ركعاتٍ بينَ المغربِ والعشاءِ، بُنيَ له قصرٌ في الجنةِ۔(الجامع الضعیر: 8691)
ترجمہ: جس نے مغرب وعشاء کے درمیان دس رکعات نماز ادا کی اس کے لئے جنت میں ایک محل بنایا جائے گا۔ 
شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:4597)
سیوطی نے اسے مرسل کہا ہے ۔ (حوالہ سابق)

ان ساری روایات کے بیان کرنے کے بعد اب دو باتیں جان لیں : 
پہلی بات یہ ہے کہ یہ تمام احادیث عام ہیں ،ان میں عام نفل نماز کا ذکر ہے ان کا اوابین کی نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے بطور مثال اس عنوان کے تحت مذکور پہلی حدیث کو دیکھیں ۔ ترمذی میں اس حدیث کے اوپر باب ہے : "باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّطَوُّعِ وَسِتِّ رَكَعَاتٍ بَعْدَ الْمَغْرِبِ" یعنی باب ہے مغرب کے بعد نفل نماز اور چھ رکعت پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں۔
اور ابن ماجہ میں اس حدیث پر باب ہے ۔"بَابُ: مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ" یعنی باب ہے مغرب اور عشاء کے درمیان کی نماز کے بیان میں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تمام روایات ناقابل اعتماد اور ضعیف ہیں ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مغرب وعشاء کے درمیان متعین رکعات کے ساتھ جو بھی احادیث آئی ہیں کوئی بھی صحیح نہیں ہے ، ایک دوسرے سے ضعف میں شدید ہیں ۔اس وقت میں بغیر تعیین کے نماز پڑھنا نبی ﷺ کے عمل کی وجہ سے صحیح ہے ۔ (الضعیفہ:1/481)
خلاصہ یہ ہوا کہ مغرب کے بعد رکعات متعین کرکے کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے ورنہ بدعت کہلائے گی کیونکہ اس سلسلہ میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے البتہ بغیر تعیین کے مغرب وعشا
ء کے درمیان نوافل پڑھ سکتے ہیں ۔ 

نماز اوابین اور احناف : 
احناف کے یہاں اوابین کی نماز مغرب کے بعد چھ رکعات ہیں اور جن احادیث سے استدلال کرتے ہیں ان کا حال اوپر گزر چکا ہے کہ سبھی ضعیف ہیں اور ان میں سے کوئی بھی نماز اوبین سے متعلق نہیں ہے ۔ بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ اوابین کی نماز مغرب وعشاء کے درمیان ہے مگر وہ بھی ضعیف ہیں مزید برآں نبی ﷺ کی صریح احادیث کے ہوتے ہوئے ضعیف اقوال کی طرف التفات بھی نہیں کیا جائے گا۔ 
(1)محمد بن المنکدر سے روایت ہے : من صلى ما بين صلاةِ المغربِ إلى صلاةِ العشاءِ ؛ فإنها صلاةُ الأوابينَ۔ 
ترجمہ: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان نماز ادا کی وہ اوابین کی نماز ہے۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:4617)
علامہ شوکانی نے اسے مرسل کہا ہے ۔(نيل الأوطار:3/66)
(2) عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں : صَلَاةُ الْأَوَّابِينَ مَا بَيْنَ أَنْ يَلْتَفِتَ أَهْلُ الْمَغْرِبِ إلَى أَنْ يَثُوبَ إلَى الْعِشَاءِ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
ترجمہ: اوابین کی نمازکا وقت اس وقت سے ہے جب نمازی نماز مغرب پڑھ کر فارغ ہوں اور عشاء کا وقت آنے تک رہتا ہے۔
اس کی سند میں موسی بن عبیدہ الزبدی ضعیف ہے ۔ 
عبد اللہ بن عمر سے یہ بھی مروی ہے : مَنْ صلَّى المغربَ في جماعةٍ ثم عقَّبَ بعشاءِ الآخرةِ فهِيَ صلاةُ الأوَّابينَ۔ 
ترجمہ: جس نے مغرب کی نماز جماعت سے پڑھی پھر اسے عشاء کی نماز سے ملایا یہی اوابین کی نماز ہے ۔ 
ابن عدی نے کہا کہ اس میں بشر بن زاذان ضعیف راوی ہے جو ضعفاء سے روایت کرتا ہے ۔(الكامل في الضعفاء: 2/180)
(3) ابن المنکدر اور ابوحازم سے تتجافی جنوبھم عن المضاجع کی تفسیر میں مغرب وعشاء کے درمیان اوابین کی نماز ہے ۔ اسے بیہقی نے سنن میں روایت ہے اور اس کی سند میں مشہور ضعیف راوی ابن لهيعة ہے جبکہ صحیح حدیث میں بغیرلفظ اوابین کے مغرب وعشاء کے درمیان نماز پڑھنا مذکور ہے۔ 
(4) ابن عباس فرماتے ہیں: الملائكة لتحف بالذين يصلون بين المغرب والعشاء وهي صلاة الأوابين۔ (شرح السنۃ للبغوی ج 2ص439)
ترجمہ: فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں اور یہ اوابین کی نماز ہے۔
(5) بعض مفسرین نے سورہ اسراء میں وارد اوابین کے تحت بھی مغرب وعشاء کے درمیان نماز پڑھنے والے کو ذکرکیا ہے تفسیرابن کثیر میں بھی کئی اقوال میں ایک یہ قول ہے ۔ 
یہ سارے محض اقوال ہیں جبکہ صریح صحیح مرفوع روایات میں اوابین کی نماز وہی ہے جو چاشت کی نماز ہے اور چاشت واوابین کا وقت طلوع آفتاب کے بعد سے لیکر ظہر سے پہلے تک ہے تاہم گرمی کے وقت ادا کرنا افضل ہے بنابریں نبی ﷺ کےثابت شدہ فرمان کے سامنے ضعیف احادیث اور غیرمستند اقوال کی کوئی حیثیت نہیں ہے اورتحقیق سے بس یہی ثابت ہوتا ہے کہ اوابین کی نماز چاشت کی نماز ہے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے 

Monday, March 21, 2022

📱فرض نماز سواری پر جائز نہیں:

قبلے کی طرف منہ کرنے کی فرضیت:​

قبلہ رخ ہونا نماز کی شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض اور نفل دونوں قسم کی نمازوں میں اپنا رخ کعبے کی جانب فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا:
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر 1
جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو( اچھے انداز سے) مکمل وضو کر، پھر قبلے کی طرف منہ کر اور تکبیر (تحریمہ) کہہ”

سواری پر نفل نماز میں استقبال قبلہ ضروری نہیں:
البتہ سفر میں قبلہ رخ ہوئے بغیر بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل یا وتر کی نماز ادا کرلینا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرسواری پر بیٹھ کرنفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب یا کسی بھی طرف ہوتا۔2
قرآن کی یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے۔3
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (سورۃ البقرۃ آیت 115)
“تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے”۔
لیکن اگر سواری کو قبلہ رخ کرنا ممکن ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے کعبے کی طرف منہ کر لینا افضل ہے۔( اس لیے کہ) کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز کے آٖغاز میں “اللہ اکبر” کہتے وقت اونٹنی سمیت قبلہ رخ ہو جاتے، اس کے بعداپنی نماز جاری رکھتے خواہ سواری کا رخ کسی بھی طرف پھر جاتا4 پھر سر کے اشارے سے رکوع و سجود ادا فرماتے اور سجدے کے لیے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لیتے تھے5۔ جمہور علماء کے نزدیک ہر قسم کے سفر میں سواری پر نفلی نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ سفر اتنا تھوڑا ہی ہو کہ اس میں فرض نماز قصر نہ کی جا سکے۔

فرض نماز سواری پر جائز نہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر اور قبلہ رخ ہو کر ادا فرماتے تھے اس لیے فرض نماز سواری پر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، مثلا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران اترنا ممکن نہ ہو اور نماز کا وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

شدیدخوف کی حالت میں نماز کیسے ادا کی جائے:
دشمن کی کثرت یا شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جا سکے تو جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے، ایسے حالات میں سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے وغیرہ کی کچھ پابندی نہیں، فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا پیدل چلتے ہوئےپڑھی جائے اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے بہرحال نماز ادا ہو جائے گی۔بلکہ سخت لڑائی میں تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے6فرمایا:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس7
جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سرسے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے”

قبلہ کی حدود
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت کو قبلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ 8
“مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت قبلہ ہے”
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کو دیکھ رہا ہو اسے اپنا رخ ٹھیک ٹھیک اس کی جانب ہی کرنا چاہیے لیکن دور کے رہنے والوں کے لیے فقط درست سمت کا التزام ہی کافی ہے۔

قبلہ کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہونا
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رفاقت میں تھے۔آسمان پر بادل چھا گیا تو قبلہ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا۔ ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی پوری کوشش کے بعدالگ الگ سمت میں نماز ادا کر لی اور اپنی اپنی سمت کو نشان زدہ کر دیا تا کہ صبح ہمیں معلوم ہو کہ کیا ہم نے قبلہ رخ نماز پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہونے پر معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز ادا نہیں کی۔ ہم نے تمام واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔انہوں نے ہمیں نمازلوٹانے کا حُکم نہیں دیا اور فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم
 تمہاری نماز ہو گئی”9

قبلے کی مختصر تاریخ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شروع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام(سورۃ البقرۃ آیت 144)
(اے محمد) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (بیت اللہ) کی طرف پھیر لو
اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز میں اپنا چہرہ مبارک خانہ کعبہ کی جانب کیا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ قباء کے مقام میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب سے ایک پیغام لانے والا آیا جس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خبردار، تم بھی اپنا رخ اسی طرف کر لو۔ چنانچہ پہلے ان کا رخ شام کی جانب تھا، اس کے کہنے پر تمام نمازی گھوم کر قبلہ رخ ہو گئے اور امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبے کی طرف رخ کر لیا۔10
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلط سمت میں نماز پڑھتے ہوئے شخص کو نماز کے دوران ہی صحیح سمت کی خبر دی جا سکتی ہے اور اگر کسی کو دوران نماز پتہ چل جائے کہ وہ غلط سمت میں نماز پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی وقت اپنا رخ صحیح سمت میں کر لے۔
حوالہ جات:
1۔صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
2۔صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوتر فی السفر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
3صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
4سنن ابی داؤدکتاب الصلاۃ باب التطوع علی الراحلۃ و الوتر، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1225
5سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ علی الدابۃ فی الطین و المطر، تفصیل کے لیے دیکھیے صفۃ صلاۃ النبی الکتاب الام ص 58
6صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قولہ عز و جل فان خفتم فرجالا ا و رکبانا فاذا امنتم فاذکروا اللہ
7سنن البیہقی جلد 3 ص 255
8سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء ان ما بین المشرق و المغرب قبلۃ ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
9سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب الاجتھاد فی القبلۃ و جواز التحری فی ذلک، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی حدیث نمبر 291
10صحیح البخاری کتاب الصلاۃ